سٹیٹ بینک نے پاکستان کی معاشی کیفیت پر رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کی رپورٹ جاری کر دی

17  مارچ‬‮  2022

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جولائی تا ستمبر 2021ء کے اعدادوشمار پر مبنی پاکستان کی معاشی رپورٹ جاری کر دی ہے۔

اسلام آباد – (اے پی پی): بینک دولت پاکستان نے جمعرات کو پاکستانی معیشت کی کیفیت پر پہلی سہ ماہی رپورٹ جاری کر دی۔ رپورٹ کا تجزیہ اور معاشی امکانات جولائی تا ستمبر2021ء کے ڈیٹا پر مبنی ہیں اور انہیں نومبر2021ء کی مدت تک دستیاب ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے حتمی شکل دی گئی ہے۔ رپورٹ میں جنوری2022ء میں بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) اور جی ڈی پی کی نئی اساس بندی کو شامل نہیں کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان کی معیشت نے مالی سال21ء میں شروع ہونے والی  نمو کی رفتار کو برقرار رکھا۔اس نمو کی رفتار میں طلب اور رسد دونوں عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں وسیع البنیاد توسیع اور خریف کی فصلوں کے بہتر نتائج سازگار رسدی حرکیات کے عکاس تھے؛ جبکہ جلد فروخت ہونے والی اشیا اور کاروں، درآمدی حجم، توانائی کے استعمال اور صارفی قرضوں کی مضبوط فروخت سے طلب میں تیزی کی نشاندہی ہوئی۔ بلند معاشی سرگرمی نے ٹیکس محاصل میں بہتری اور کم مالیاتی خسارے میں کردار ادا کیا۔ تاہم، اجناس کی عالمی قیمتوں میں خاصے اضافے نے مہنگائی کے دباؤ کو بڑھا دیا اور جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی تا ستمبر2021ء کی مدت میں گنجائشی پالیسی کے تسلسل، برآمدی فرموں کے لیے اسٹیٹ بینک کی دستیاب ری فنانس اسکیموں اور نمو پر مبنی مالی سال22ء کے بجٹ کی بدولت ایل ایس ایم کے شعبے کی نمو بڑھ کر5.1فیصد ہو گئی جو گذشتہ برس4.5فیصد تھی۔ وہ صنعتیں جنہیں مالیاتی اعانت سے براہ راست فائدہ پہنچا ان میں گاڑیوں اور تعمیرات اور اس سے منسلک شعبوں نے بھی بلند نمو درج کی۔ زراعت کے شعبے میں چاول، گنے اور کپاس کے ابتدائی تخمینے پیداوار کی حوصلہ افزا سطح کو ظاہر کرتے ہیں۔ زری لحاظ سے سستے قرضوں کی دستیابی نے خصوصاً بڑھتی ہوئی خام مال کی لاگت کے سبب صنعتی سرگرمی کو بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

پہلی سہ ماہی میں کمرشل بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کے کاروباری اداروں کو دئیے گئے قرضوں میں177.4ارب روپے کا اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ برس101.4ارب روپے کی خالص واپسی ہوئی تھی۔ ٹیکسٹائل، خوردنی تیل کمپنیوں اور آئل ریفائنریوں نے جاری سرمائے کے بھاری قرضے لیے، جس کا جزوی سبب درآمدی خام مال کی بلند لاگت تھی۔ ٹیکسٹائل جیسی برآمدی نوعیت کی صنعتوں کے لیے برآمدی فنانس اسکیم اور طویل مدتی فنانسنگ سہولت کے ساتھ عارضی معاشی ری فنانس سہولت کے تحت قرضوں کی فراہمی سے انہیں جاری سرمائے اور معین سرمایہ کاری کے مقاصد سے رعایتی نرخوں پر قرض لینے کا موقع ملا۔

مکانات کے قرضوں کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک کی کوششوں بشمول میرا پاکستان میرا گھر اسکیم کے تحت زراعانت یافتہ قرضوں کی فراہمی کے مطلوبہ نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے۔ بینکوں نے آخر ستمبر2021ء تک میرا پاکستان میرا گھر اسکیم کے تحت72ارب روپے کے قرضوں کی منظوری دی، جن میں سے16.97ارب روپے کی ادائیگی کر دی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بینکوں کا ہاؤسنگ اور تعمیراتی قرضوں کا واجب الادا حجم آخری سہ ماہی تک بڑھ کر305ارب روپے تک پہنچ گیا، جو ایک سال قبل166ارب روپے تھا۔

رپورٹ میں توجہ دلائی گئی کہ مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس بڑھی ہوئی اقتصادی سرگرمی کے ساتھ ساتھ درآمدات میں اضافے، کارپوریٹ انکم ٹیکس سے استثنیٰ واپس لیے جانے، ملکی قیمتوں میں اضافے، ٹیکس وصولی کی کوششوں اور بجٹ میں بعض اقدامات کے نتیجے میں ایف بی آر کے ٹیکسوں میں 38.3 فیصد کی معقول نمو ہوئی۔ بلند محاصل سے غیر سودی اخراجات میں خاصے اضافے کا موقع ملا جن میں اہم مدّات ترقیاتی اخراجات میں اضافہ، کووڈ 19 ویکسین کی خریداری، اور بجلی کے شعبے کو زرِ اعانت ہیں۔ چنانچہ بنیادی توازن میں فاضل رقم موجود رہی۔

ملکی اور بیرونی دونوں قرضوں پر سودی ادائیگیاں کم ہونے سے مالیاتی پوزیشن کو بھی ٹھوس فوائد پہنچے۔ نتیجتاً مالیاتی خسارہ جو گذشتہ سال جی ڈی پی کا 1.0 فیصد تھا، گھٹ کر 0.8 فیصد رہ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں یہ بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اس عرصے کے دوران کئی چیزیں ان کُلی معاشی فوائد کے آڑے آئیں جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں اور نقل و حمل کے اخراجات میں نمایاں اضافہ شامل ہیں۔

صارف اشاریہ قیمت مہنگائی گذشتہ سال کی نسبت کچھ کمی کے باوجود مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران 8.6 فیصد کی بلند سطح پر رہی۔ عمومی مہنگائی میں سب سے بڑا حصہ دار غذائی گروپ تھا کیونکہ خوردنی تیل، پولٹری، گندم اور شکر کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ دریں اثنا، تیل کے عالمی نرخوں میں تیز رفتار اضافہ توانائی کی بلند مہنگائی کا سبب بنا حالانکہ جولائی تا ستمبر 2021ء کے دوران حکومت نے تیل کے اضافی نرخوں کے جزوی انجذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹیکس کم کئے تھے۔

سہ ماہی رپورٹ میں اس امر کی طرف متوجہ کیا گیا کہ اجناس کی عالمی قیمتیں بڑھنے سے درآمدی اخراجات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا۔ ملک کی درآمدی طلب بڑھانے میں مستحکم صنعتی سرگرمی، کووڈ 19 کی ویکسین درآمد کرنے کی ضرورت، اور اشیائے سرمایہ کی درآمد نے حصہ لیا۔ برآمدی وصولیوں اور کارکنوں کی ترسیلات میں اضافہ حوصلہ افزا رہنے کے باوجود درآمدی ادائیگیاں بڑھنے کی تلافی نہ کر سکا۔ چنانچہ مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ بڑھ کر 3.5 ارب ڈالر تک جا پہنچا، اور ادائیگیوں کا یہ دباؤ سہ ماہی کے دوران مارکیٹ سے متعین ہونے والی شرحِ مبادلہ میں ڈالر کی نسبت روپے میں 7.7 فیصد کمی پر منتج ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ادائیگیوں کے دباؤ کے جواب میں پالیسی سازوں کو ایک محتاط توازن برقرار رکھنا پڑا۔ بنیادی فکر یہ تھی کہ جاری اقتصادی تحرّک میں خلل ڈالنے سے گریز کیا جائے، بالخصوص جولائی تا ستمبر 2021ء کے دوران کووڈ 19 کے ڈیلٹا ویریئنٹ کی لہر پھیلنے کے تناظر میں پیدا ہونے والی شدید بے یقینی کے پیشِ نظر اس خلل سے بچا جائے۔ ایک طرف یہ فکر لاحق تھی تو دوسری طرف بیرونی کھاتے کا دباؤ اور مستقبل میں بلند مہنگائی کی توقعات بھی موجود تھیں۔ اس کے جواب میں اسٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے اپنا زری پالیسی موقف تبدیل کرتے ہوئے ستمبر 2021ء کے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 25 بی پی ایس بڑھا دیا جبکہ جولائی 2021ء کے اجلاس میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔

درآمدی طلب کو محدود رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے متعدد ضوابطی اقدامات بھی کئے۔اگرچہ جاری کھاتے کا فرق بڑھتا گیا، تاہم رپورٹ اس بات کو واضح کرتی ہے کہ بلند بیرونی مالکاری کی دستیابی کے پیشِ نظر ملک کے بیرونی بفرز برقرار رہے۔ مالی رقوم کا بڑا بہاؤ اضافی ایس ڈی آر کے اختصاص اور یورو بانڈز کے اجرا سے آیا ہے۔ مزید برآں، روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس (آر ڈی ایز) میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دلچسپی برقرار رہی، جس کے نتیجے میں جولائی تا ستمبر 2021ء کے دوران 849 ملین ڈالر کی رقوم کی آمد ہوئی، اور اس کے آغاز سے ستمبر 2021ء کے اختتام تک مجموعی آمد 2.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ ستمبر 2021ء کے اختتام تک اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر 2.0 ارب ڈالر اضافے سے بڑھ کر 19.3 ارب ڈالر ہو گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 22ء کی پہلی سہ ماہی میں ہونے والی پیش رفتیں اجناس کی عالمی قیمتوں کے دھچکوں کے لیے پاکستان کی حساسیت اور شعبہ جاتی سطح پر مستقل پالیسیوں کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ پام اور سویا بین کے تیل کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بیرونی کھاتے اور مہنگائی پر سنگین مضمرات کے پیشِ نظر، رپورٹ میں شامل خصوصی سیکشن پاکستان میں ملکی روغنی بیجوں کے شعبے کا تجزیہ کرتا ہے۔

سیکشن میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگرچہ ملکی روغنی بیجوں میں پیش رفت کا حوالہ ملک کے پہلے پانچ سالہ منصوبے (1955-60ء) میں دیکھا جا سکتا ہے،  تاہم ایک مستقل پالیسی اور نفاذ کی کسی مخصوص اور فعال ایجنسی کی عدم موجودگی میں گذشتہ برسوں کے دوران درآمدات پر انحصار میں مستقل اضافہ ہوا ہے۔ سیکشن کے اختتام پر ملکی روغنی بیجوں کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسی سفارشات فراہم کی گئی ہیں۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved