سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریک عدم اعتماد اور ڈی چوک پر جلسے و لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست آج فوری سماعت کے لئے مقرر کی۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے، عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اخبارات سے معلوم ہوا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے حکومت بھی سپریم کورٹ آ رہی ہے، سپریم کورٹ بار لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں، ہم نے ایک ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کے برخلاف ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے، کچھ حکومتی ممبران سندھ ہاؤس میں تھے، جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا ، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھاکہ عدالت یقنیی بنائے گی کہ قومی اداروں کو تحفظ فراہم کرے، اٹارنی جنرل آپ 63 اے کے حوالے سے عدالت کی رائے چاہتے ہیں، ہم وہ معاملہ بھی اس درخواست کے ساتھ سن لیتے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر پیپلزپارٹی، (ن) لیگ ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کو نوٹس جاری کردیا۔سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت پیر دن ایک بجے تک ملتوی کردی۔