آئین میں جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہی نہیں قرار دیا گیا، ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں ، سپریم کورٹ

25  مارچ‬‮  2022

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ صدر نے آئینی تشریح کا کہا ہے، ادھر اُدھر نہیں جا سکتے، ممکن ہے ریفرنس واپس بھیج دیں۔
آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت ہوئی ۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاءبندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ نے کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کو آگے بڑھایا جس دوران اٹارنی جنرل نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاﺅس میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔
اٹارنی جنرل پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کا دلائنل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں والے ارکان بھی سندھ ہاؤس میں موجود تھے، مخصوص نشستیں پارٹی کی جانب سے فہرست پر ملتی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق پارٹی کو ووٹ نہ دینے والے خیانت کرتے ہیں، اعتماد توڑنے والے کو خائن کہا جاتا ہے اور خیانت کی قرآن میں بہت سخت سزا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مضبوط جماعتی سسٹم مضبوط جمہوری نظام کا ضامن ہے، آئین میں جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہی نہیں قرار دیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جب ایک رکن جماعت کا حصہ بنتا ہے تو پارٹی وفاداری کا دستخط دیتا ہے، کیا 63 اے کے تحت پارٹی ہیڈ نے اراکین کو ہدایات جاری کی ہیں؟ اگر وزیراعظم نے کوئی ہدایت جاری کی ہیں تو عدالت کو آگاہ کریں۔جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے والا استعفی کیوں دے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والا جماعت کے ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل بولے کہ آئین پاکستان ہر شخص کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق دیتا ہے تو کیا خیالات کے اظہار پر تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اراکین اسمبلی صرف چار مواقع پر آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، بطور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہاؤس میں رہتا تھا، سندھ ہاؤس میں ایسی کوئی ڈیوائس نہیں تھی جو ضمیر جگائے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ذاتی مفاد کے لیے اپنے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بے وفائی ہے، پارٹی کے اندر جمہوریت ہو تو آرٹیکل 63 اے کی ضرورت نہیں رہتی، آرٹیکل 63 اے کی خوبصورتی ہے کہ اسے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ وزیراعظم ملک کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو کیا رکن مخالفت نہیں کر سکتا؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف لگے گا؟ آرٹیکل 63 اے نشست خالی ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کوئی رکن ووٹ ڈالنے کے بعد استعفی دیدے تو کیا ہو گا؟

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved