آرٹیکل 63 میں تاحیات نااہلی کا کہیں ذکر نہیں، سپریم کورٹ

29  مارچ‬‮  2022

سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے ریفرنس کی سماعت کے موقع پر دلائل کا سلسلہ جاری ہے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس پرسماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز  پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے آج سوالات نہیں ہوں گے، وہ اپنے دلائل مکمل کریں۔چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آج آپ سے سوالات نہیں ہوں گے، اپنے دلائل مکمل کریں۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ وزیرِ اعظم سے عدالتی سوالات پر بات ہوئی ہے، ان کے توسط سے عدالت میں بیان دینا چاہتا ہوں، وزیرِ اعظم سپریم کورٹ اور ججز کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے کمالیہ کے جلسے میں 1997ء میں ججز کو ساتھ ملانے کی بات کی تھی، وزیرِ اعظم ججز کی غیر جانبداری اور عدالت کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ ہاؤس پر حملے کے ملزمان کی گرفتاری کی رپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ ڈکلیریشن آ جائے تو منحرف رکن پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا، چور چور ہوتا ہے کسی کو اچھا چور نہیں کہا جاسکتا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس منیب اختر  نے سوال  کیا کہ ایک ممبرکوڈی سیٹ ہونےکے بعد کس بنیاد پر نااہل ہونا چاہیے،  پارلیمنٹ نااہلی کی مدت 2 یا 5 سال تک مقرر کرسکتی ہے، کیا ایک شخص کو تاحیات نااہل کرنے کیلئے انحراف کی بنیاد کافی ہے؟ جب کہ جسٹس  اعجاز نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ 62 اے میں ترمیم کرکے نااہلی کی مدت کیوں مقرر نہیں کررہی؟جسٹس جمال مندوخیل  نے سوال کیا کہ کیا دنیا کے کسی قانون میں نااہلی انحراف کے بنیاد پرہے؟ اس پر اٹارنی  جنرل نے کہا کہ دنیا کے کسی قانون میں تاحیات نااہلی بھی نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ 63 اے میں نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے  قانون سازی کرسکتی ہے جب کہ جسٹس اعجاز  نے سوال  کیا کہ پارٹی سے انحراف پر ڈی سیٹ تو ہوگا،کیا تاحیات نااہلی ہونی چاہیے؟ جوتکلیف جماعتیں نہیں کرنا چاہتی وہ آپ سپریم کورٹ سے کرانا چاہتے ہیں۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved