کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات، کیا ریاست نےسرنڈر کر دیا ہے، سپریم کورٹ

10  ‬‮نومبر‬‮  2021

سانحہ آرمی پبلک سکول کیس  کی سماعت میں آج چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم سے استفسار کیا کہ سانحہ اے پی ایس  کے مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئےآپ نےکیا کیا؟ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ توان لوگوں سے مذاکرات کررہے ہیں، جسٹس قاضی امین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا ہم پھر مذاکرات کر کے سرنڈر کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے وزیراعظم کو آج عدالت طلب کیا۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو روسٹرم پر طلب کیا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ سات سال سے کسی بڑے کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی، اب آپ بااختیار وزیر اعظم ہیں، مظلوم کا ساتھ تو یہی ہے کہ ظالم کے خلاف کارروائی ہو۔ حکومت بتائے کہ ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

اپنے ریمارکس میں ان کا مزید کہنا تھا کہ سپاہی سے پہلے زمہ دارن ٹاپ افسران تھے، آرمی کے اس وقت کے جو کرتے دھرتے تھے مراعات کے ساتھ ریٹائرڈ ہوگئے، اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا، کیا شہداء کے والدین کو سننے والا کوئی نہیں ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ‏یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ آئین کی کتاب ہر شہری کو سیکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے،  ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں ، آپ بتائیں اے پی ایس واقعے پر کیا ایکشن لیا؟ ‏

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ والدین کو تسلی کرانا ضروری ہے، والدین چاہتے ہیں کہ اس وقت کے  اعلیٰ حکام کے خلاف کارروائی ہو۔

وزیراعظم عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ جب اے پی ایس کا واقعہ ہوا تو صوبے میں ہماری حکومت تھی، جو ممکن ہو سکا وہ اقدامات اٹھائے، جب یہ واقعہ ہوا تو میں فوراً پشاور پہنچا اور والدین سے ملاقات کی تھی۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کوئی خصوصی اقدام نہیں اٹھائے گئے، حکومت نے کوئی اہم اقدام اٹھائے ہیں تو عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، ہمیں صرف یہ جاننا ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجرموں کا سراغ کیوں نہ لگایا جا سکا؟

جسٹس قاضی امین نےاپنے ریمارکس میں کہا کہ ماضی میں جانے کی ضرورت نہیں، آپ وزیراعظم ہیں، ہم آپکا احترام کرتے ہیں،  یہ بتائیں کہ سانحہ کے بعد اب تک  حکومت نے کیا اقدامات اٹھائےہیں؟

وزیر اعظم نے  کہا کہ ہم نے سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا، ہم جنگ اس لیے جیتے کہ پوری قوم پاک فوج کیساتھ کھڑی رہی۔ ہم نے نیشنل انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کمیٹی بنائی جو معاملے کو دیکھ رہی ہے، والدین نے جو نام دئیے ان میں سے کوئی مقدس گائے نہیں، لیکن اخلاقی ذمہ داری پر کیسے کسی کے خلاف ایف آئی آر درج کر دیں سپریم کورٹ حکم جاری کرے، حکومت ایکشن لے گی۔

چیف جسٹس نے جواباً  ریمارکس میں کہا کہ  بچوں کے والدین کو ملاقاتوں کے ذریعے ازالہ نہیں چاہیے تھا، انہیں اپنے بچے چاہئیں تھے۔ عدالت نے اپنے آخری حکم میں باقاعدہ نام جاری کئے تھے ان کا کیا ہوا؟ اب  آپ حکومت  میں ہیں،  آپ نے کیا کیا ؟  ان ہی مجرموں کو آپ مذاکرات کی میز پر لے آئے؟ جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا  کہ کیا فوج دوبارہ ان کے سامنے سرینڈر کر رہی ہے؟

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ قانون کی حکمرانی پہ یقین رکھتا ہوں، ‏حکومت انصاف کےلیے تمام اقدامات بروئے کار لائیں گی۔

جس پر سپریم کورٹ نے حکومت کو سانحہ اے پی ایس متاثرین کے ساتھ مل کراقدامات اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے دو ہفتوں کے اندر پیش رفت رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے مزید وقت کی استدعا کی جسے منظور کر لیا گیا اور  حکومت کو 4 ہفتوں کا وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved