سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے استعفے کے متعلق نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 9 اپریل کی رات سینئر صحافی وزیراعظم عمران کیساتھ ملاقات میں موجود تھے، وزیراعظم ہاؤس میں سب کو معلوم تھا کہ حالات نارمل نہیں ہیں، اور رخصتی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ اسیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے، کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا بھی ضروری تھا، جبکہ آرٹیکل 65 اور 69 کی خلاف ورزی کا بھی خدشہ تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسد قیصر خاصے کنفیوز تھے، اور کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے، لیکن پارٹی اپنا فیصلہ کر چکی تھی۔ ان حالات میں چند وزراء بھی ایسے تھے جو وزیراعظم عمران خان کیساتھ مشاورت کے غیر آزادانہ طور پر فیصلے کر رہے تھے، یعنی کہ وزیراعظم ان کے فیصلوں سے لاعلم تھے۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے کے متعلق یہ طے کیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ابھی دو تین روز تک چلے گا، اور غیر ملکی دھمکی آمیز خط پر بحث جاری رہے گی، اور اس کے اختتام کے قریب اسد قیصر اپنے استعفے کا اعلان کریں گے۔ لیکن سینئر صحافیوں کی عمران خان کیساتھ ملاقات کے دوران چینلز پر خبریں نشر ہونا شروع ہو گئیں کہ اسد قیصر نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس کے سٹاف نے سینئر صحافیوں سے کہا کہ یہ غلط خبر ہے، اسے رکوایا جائے، ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ اسد قیصر قومی اسمبلی اجلاس میں پہنچ گئے، اور اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔
پارٹی قیادت نے یہ طے کیا تھا کہ اسد قیصر استعفیٰ اجلاس کے اختتام پر دیں گے، لیکن انہوں نے پہلے ہی استعفیٰ دے کر حکومتی وزراء کو بھی حیران کر دیا، اور ساتھ ہی اجلاس کی صدارت پینل آف چیئر ایاز صادق کو سونپ دی، حالانکہ طے یہ ہوا تھا کہ اسد قیصر صرف اپنے استعفے کا اعلان کر کے اجلاس سے اٹھ کر آ جائیں گے۔
یاد رہے کہ اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد ایاز صادق کی سربراہی میں قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تھی، اور تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے کامیاب ہو گئی تھی، جس کے بعد عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔