اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو پی ٹی آئی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے گھروں چھاپے اور انہیں ہراساں کرنے سے روک دیا ہے۔
رہنماء پی ٹی آئی علی نواز اعوان نے سوشل میڈیا کارکنوں کی ہراسگی معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد ، آئی جی پنجاب، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے سائبر ونگ کو فریق بنایا۔
درخواست میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے گھروں پر غیر قانونی چھاپے مارے جارہے ہیں، ان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج کئے گئے ، حکمران جماعت کی ایماء پر کارکنان کے خلاف کاروائیاں شروع کی گئی ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کارکنان کی فیملیز کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے، اظہاررائے کی آزادی ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
درخواست گزار نے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو غیر قانونی طور پر ہراساں کرنے سے روکا جائے،سیاسی بنیادوں پر چادر چار دیواری پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جائے، ایف آئی اے اور پولیس کاروائیوں کو عدالتی فیصلوں کے تناظر میں غیر قانونی قرار دیا جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست پر آج ہی سماعت کی تو علی نواز اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جونہی حکومت تبدیل ہوئی تو ہمارے ورکرز کے خلاف کاروائیاں شروع ہو گئیں، سوشل میڈیا ہیڈ ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر پر ایف آئی اے نے دو بار ریڈ کیا، ان پر کیا الزام اور ایف آئی آر ہے؟ کس قانون کے تحت ریڈ ہوا کچھ نہیں پتہ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کو کل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز و سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ہراساں کرنے سے روک دیا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ ایف آئی اے کسی طور بھی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ہراساں نہ کرے۔