سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی اور شاہزیب خانزادہ لائیو پروگرام کے دوران لڑ پڑے۔
نجی چینل کے پروگرام میں جب ارشاد بھٹی کو بولنے کا موقع ملا تو انہوں نے پروگرام کے میزبان محمد جنید کو کہا کہ آپ کی بڑی مہربانی، میں آج آپ کو ڈپٹی سپیکر نہیں کہوں گا بلکہ سپیکر کہوں گا کیونکہ بحث اتنی آگے چلے گئی ہے کہ میں بھول ہی گیا تھا کہ میں بھی پروگرام میں شریک ہوں۔
ارشاد بھٹی نے اس سے قبل کی گئی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے بڑے بھائی شاہ زیب نے بڑا خوبصورت فقرہ بولا کہ اگر عمران خان اپنا من مرضی کا کمیشن بنواتے ہیں اور فیصلہ ان کے خلاف آ جاتا ہے تو وہ پھر بھی نہیں مانیں گے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا شاہ زیب بھائی مجھے اپنے علم اور فراصت سے بتا سکتے ہیں کہ پچھلے 74 برسوں میں کوئی ایک فیصلہ ایسا ہوا ہو جس کو کسی سیاسی جماعت نے اپنے خلاف آنے پر قبول کیا ہو؟
ارشاد بھٹی کی بات ابھی جاری تھی کہ شاہ زیب درمیان میں آئے اور کہا کہ 2008ء کا الیکشن ن لیگ ہار گئی تھی لیکن انہوں نے زرداری کی حکومت کو تسلیم کیا تھااور ایسے ہی 2013ء میں پیپلز پارٹی ہار گئی تھی اور ن لیگ جیت گئی تھی جس کو زرداری نے تسلیم کیاتھا ۔
اس موقع پر ارشاد بھٹی نے کہا کہ زرداری نے 2013ء والے الیکشن کو آر او کاالیکشن کہا تھا۔جس پر شاہ زیب بولے چاہے جو بھی کہا ہو لیکن انہوں نے فیصلہ تو قبول کیا تھااور وزیراعظم نواز شریف سے صدر زرداری نے حلف لیا تھا۔ارشاد بھٹی نے شاہ زیب خانزادہ سے کہا کہ آپ جب چاہیں بات کریں لیکن مجھے ٹوک دیتے ہیں۔ شاہ زیب خانزادہ نے کہا کہ اگر آپ سوال مجھ سے کریں گے تو آپ کو جواب بھی میں ہی دوں گا۔جس پر ارشاد بھٹی نے کہا کہ آپ بھی تجزیہ کار ہیں اور میں بھی تجزیہ کار ہوں، جواب میں شاہ زیب خانزادہ نے کہا تو پھر آپ اپنا تجزیہ دیں مجھ سے سوال نہ کریں ۔