سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق و رہنماء پی ٹی آئی شیریں مزاری نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے بیان کی تردید کر دی ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں شیریں مزاری نے کہا کہ میں واضح کردوں اور ریکارڈ پر لےآؤں کہ وزیراعظم نےسیاسی ڈیڈلاک کےخاتمےکیلئےفوج سےمددطلب نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ فوج نےاس وقت کےوزیر دفاع پرویزخٹک کے ذریعےملاقات کا وقت مانگا اور 3 تجاویز دیں کہ وزیراعظم مستعفیٰ ہوں، عدم اعتماد کا سامناکریں یا نئےانتخابات قبول کریں۔
عمران خان مستعفٰی ہوتےہی کیوں جب وہ پہلےہی کئی مرتبہ دوٹوک انداز میں کہہ چکےتھےکہ وہ کبھی استعفٰی نہیں دینگے۔ یہ ناقابلِ فہم ہےعمران خان تو تبدیلئ حکومت کی غیرملکی سازش کےطور پر عدمِ اعتماد ہی کومستردکرچکےتھےتو وہ یہ آپشنزکیوں تجویزکرتے۔نہایت مضحکہ خیز!
#امپورٹڈ_حکومت_نامنظور— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) April 15, 2022
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ عمران خان تو پہلے ہی دوٹوک الفاظ میں کہہ چکے تھے کہ مستعفی نہیں ہوں گے، پھر وہ استعفیٰ کیوں دیتے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی حکومت کو غیر ملکی سازش قرار دے رہے ہوں، اور اسے مسترد کرنے کے باوجود وہ دوسری طرف یہ تین آپشنز دے رہے ہوں۔
یاد رہے کہ 13 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وزیراعظم آفس کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید کیساتھ رابطہ کیا گیا تھا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں کوئی رستہ نکالیں، پھر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم ہاوس گئے، وہاں وزیراعظم اور چند وفاقی وزراء کیساتھ میٹنگ میں یہ حکومت نے تین آپشن دئیے کہ تحریک عدم اعتماد کا سامنا، وزیراعظم کا استعفیٰ یا اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد واپس لئے جانے کی صورت میں اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کرائے جائیں، لیکن یہ آپشنز اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نہیں دئیے گئے تھے۔