اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نا کرنے پرمنی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانا غیرقانونی قراردے دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کر دیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانے کے لیے جرم کے پیسے سے اثاثے بنانے کا ربطہ ثابت کرنا ضروری ہے۔ ایف بی آر،اینٹلی جنس اثاثے ڈیکلیئر نا کرنے یا چھپانے پر بنایا منی لانڈرنگ مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔عدلت نے فیصلے میں کہا کہ 2010 کا ایکٹ منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی فنڈنگ روکنے کے لیے جاری کیا گیا۔ 2010 ایکٹ کی سیکشن 4 کے تحت منی لانڈرنگ قابل سزا جرم ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کہہ چکی ہے منی لانڈرنگ مقدمہ بنانے کے لیے چھپائے گئے اثاثوں کا جرم کے پیسے سے ربط ثابت کرنا ضرور ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ 29 جون 2021 کو ایف آئی آر درج ہوئی جس میں اثاثے ڈیکلیئر نا کرنے یا چھپانے کا الزام ہے۔ منی لانڈرنگ کا کرمنل کیس بنانے کی کارروائی اختیارات سے تجاوز اور غیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے فیصلے میں کہا کہ یہ صرف اثاثے چھپانے کا کیس تھا منی لانڈرنگ کا جرم نہیں بنتا۔ عدالت نے اثاثے منجمد کرنے اور منی لانڈرنگ کی ایف آئی آر غیر قانونی قرار دے کر خارج کردی۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ اگرادارہ اثاثے چھپانے کے تحت کارروائی کرنا چاہے تو متعلقہ قانون کی تحت کر سکتا ہے۔
راولپنڈی کے بزنس مین الطاف احمد گوندل کی جانب سے کیس کی پیروی عدنان رندھاوا ایڈووکیٹ نے کی۔عدنان حیدر رندھاوا ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت نے ملک بھر میں ٹیکس تنازعات پر منی لانڈرنگ مقدمات بنانے کے حوالے سے اہم قانونی اصول طے کیا ہے۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ کاروباری طبقے کو منی لانڈرنگ مقدمات کے ذریعے ہراساں کرنے کے سلسلے کی روک تھام میں مدد ملے گی۔