ایک چیف جسٹس کے سامنے چیف جسٹس پاکستان نے کوئی بات کی، اور وہ 3 سال خاموش رہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟

16  ‬‮نومبر‬‮  2021

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق سپریم جج گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے بیان حلفی پر خبر شائع کرنے کے معاملے کی سماعت ہوئی، آج کی کاروائی میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری، دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان سمیت دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا اگر مجھے اپنے ججز پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ توہین عدالت کی کارروائی نہ کرتا، اس عدالت نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہیے اور ان پر تنقید بھی کی جا سکتی ہے، کیونکہ اگر لوگوں کا اعتماد عدالت پر ختم ہو جائے تو افراتفری پھیلتی ہے، آپ نے یہ کیا کیاہے؟

کوئی بھی اپنا بیان حلفی نوٹرائز کرائے تو آپ اسے لیڈسٹوری بنا دیں گے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ کامیرشکیل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ آپ ایک بڑی میڈیا آرگنائزیشن کے مالک ہیں،  اگر کوئی بھی اپنا بیان حلفی نوٹرائز کراتا ہے توکیا آپ اسکو اخبار کی لیڈ سٹوری بنا دیں گے؟

کیا عدالت میں کوئی شخص میرے ججز پر الزام عائد کر سکتا ہے کہ وہ کسی سے ہدایات لیتے ہیں،  کیا آپ نے پوچھا کہ یہ بیان حلفی برطانیہ میں نوٹرائزکیوں ہوا؟

انصار عباسی سے مکالمے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ انویسٹی گیٹو صحافی ہیں،  میں آپ کااحترام کرتا ہوں، احتساب عدالت نے 6 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی تھی اور 16جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس کے خلاف  اپیل دائر کی گئی تھی۔چیف جسٹس نے کہااس وقت  میں اور جسٹس عامر فاروق چھٹیوں پر ملک سے باہر تھے، اپیلوں پر سماعت جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی تھی۔

یہ دونوں نام ملک بھر کے قابل احترام ججز ہیں،  آپ ہائیکورٹ سے ہی پوچھ لیتے کہ کون سا بینچ اس وقت کیس کی سماعت کر رہا تھا، آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ کیا کیس الیکشن سے پہلے سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست کی تھی، خواجہ حارث پیشہ ور وکیل ہیں انہیں معلوم تھا کہ یہ طریقہ کار نہیں ہوتا۔آپ کسی وکیل سے پوچھ لیں، ایک دن اپیل دائر ہو اور سزا معطل ہو جائے، ایسا نہیں ہوتا، ایک سال کیلئے ڈویژن بینچ تھے جنہوں نے اس ہائیکورٹ کو چلایا۔

خبر میں آپ نے جج کے نام کی جگہ خالی چھوڑ کر پوری ہائیکورٹ پر الزام لگایا ہے

چیف جسٹس اطہر من اللہ نےمزید کہا کہ جج کے نام کی جگہ خالی چھوڑ کر آپ نے پوری  ہائیکورٹ پر الزام عائد کیا ہے، اس ہائیکورٹ سے لوگوں کا اعتماد اٹھانے کیلئے سازشیں شروع ہو گئیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس ایک چیف جسٹس کے سامنے ایسی بات کرے اور وہ 3سال خاموش رہے، پھر اچانک سے ایک پراسرار حلف نامہ آ جائے اور ایک بڑے اخبارلیڈ سٹوری کے طور پرشائع ہو جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اہم ترین عہدہ رکھنے والا شخص 3 سال بعد ایسا بیان حلفی کیسے دے سکتا ہے؟ افواہیں ہیں کہ وہ بیان حلفی جعلی ہے، اگر وہ جعلی ثابت ہوتا ہے تو پھر شائع کرنے والے کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟

اس موقع پر صحافی انصار عباسی نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ اب کیا کہیں گے، جو نقصان کرنا تھا وہ آپ کر چکے ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ رانا شمیم کے بھائی کا انتقال ہوا ہے، انہیں پیش ہونے کیلئے وقت دیا جائے۔وکیل رانا شمیم نے بتایا کہ ان کے موکل امریکہ میں ایک کانفرنس میں شریک ہونے کیلئے گئے تھے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رانا شمیم کے بھائی کا 6 نومبر کو انتقال ہوا، یہ پورے نظام انصاف اور بالخصوص ہائیکورٹ پر الزام عائد کیا گیاہے، یہ کوئی عام معاملہ نہیں اسکے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے۔

نوازشریف کی اپیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی، جسکی مثال نہیں ملتی

اس کے بعدچیف جسٹس نے انصار عباسی سے سوال کیا کہ جس بینچ نے سماعت کی وہ کس نے بنوایا تھا؟ آپ لکھیں، میں آپکو لکھواتا ہوں کہ اس کیس کی سماعتیں کتنی ہوئیں، عدالت نے ان اپیلوں پر روزانہ کی بنیاد پر بھی سماعت کی، اسکی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، ہائیکورٹ کا کوئی جج کسی کو اپنے گھر یا اپنے چیمبر میں آنے کی اجازت دے تو میں ذمہ دار ہوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نقصان تو ہوچکا ہے، جس بیان حلفی پر ابہام ہے جو کہیں کسی جوڈیشل فارم پر پیش ہوا، تحقیقات کئے بغیر خبر شائع کر دی۔جواباً انصار عباسی نے کہا  کہ میں نے کسی جج کا نام نہیں لیا، میرے خلاف آپ کارروائی عمل میں لائیں مگر الزمات  کی تحقیقات کروائیں۔

سوشل میڈیا اور اخبار میں فرق ہوتا ہے

عدالت نے میر شکیل الرحمٰن اور عامرغوری سے سوال کیا کہ آپ کی بھی ذ مہ داری تھی ایسی اسٹوری کیسے چھپی، سوشل میڈیا اور نیوز پیپرز میں فرق ہوتا ہے،  اخبارکی ایڈیٹوریل پالیسی اور ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے، اس ہائیکورٹ کے جج سے متعلق بات کی گئی جو بلاخوف وخطر کام کرتی ہے۔  مسلسل یہ بات کی جارہی ہے  کہ کہا گیا الیکشن  2018ء سے پہلے نواز شریف اور مریم کو نہ چھوڑا جائے، آپ کم از کم ا ہمارے رجسٹرار سے ہی پوچھ لیتے۔

عدالت نے رانا شمیم سمیت تمام فریقین سے 7 روز میں جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 10 روز تک ملتوی کر دی اور فریقین کو 26 نومبر کی سماعت میں ذاتی طور پر پیش ہونے کے احکامات جاری کر دئیے۔

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید نے کہا کہ اگلی سماعت پر میں بیرون ملک ہوں گا، جس پر عدالت نے انہیں نمائندہ مقرر کرنے کی ہدایت کردی۔

یاد رہے کہ سابق چیف جج سپریم اپیلیٹ کورٹ آف گلگت بلتستان جسٹس ڈاکٹر رانا محمد شمیم نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے میری موجودگی میں ہائیکورٹ کے جج کو فون کال پہ کہا تھا کہ نوزشریف اور مریم نواز کی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ضمانت کی درخواست منظور نہیں کرنی۔ جس پر ردعمل میں سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا ہے کہ رانا شمیم نے جو الزام لگایا وہ بالکل لغو اور بے بنیاد ہے۔ میں نے رانا شمیم کا ایک آرڈر کالعدم قرار دیا جس کا انہیں رنج تھا۔ رانا شمیم نے گلہ کیا کہ میں نے اس کی ایکسٹینشن رکوائی ہے جبکہ میرا  ایکسٹینشن رکوانے میں کوئی کردار نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو دیکھ رہا ہوں کہ ان الزامات پر کیا کیا جا سکتا ہے۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved