گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
جمعہ کو اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا اگر الیکشن ہوتا تو حلف بھی ہوجاتا، میں کسی نوٹنکی لیگ کا درباری نہیں کہ ہر غیر آئینی اور غیر قانونی کام پر بس ٹھپے لگاتا رہوں، 26 سال وضع داری اور اصولوں کی سیاست کی ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس جواد حسن نے ن لیگ کے نائب صدر حمزہ شہباز کی حلف برداری کے لیے دائر درخواست کی لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کی، حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس جواد حسن نے کہا کہ عدالت کا وقت گزر چکا ہے کیسے سن سکتے ہیں، حمزہ شہباز کے وکیل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ ہائیکورٹ رولز کے تحت بنیادی حقوق کے لیے وقت بڑھایا جا سکتا ہے۔
جسٹس جوادحسن نے ریمارکس دیئے کہ میں نے تو سب کچھ ابھی پڑھنا ہے، میں نے تو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے،چیف جسٹس کا کیا حکم تھا ؟، حمزہ کے وکیل اشتر اوصاف علی نے بتایا کہ چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ کا حلف 28 اپریل تک کرانے کا کہا تھا۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ کسی کی جرات نہیں ہونی چاہیے کہ ہائیکورٹ کے حکم کو نہ مانے، وکیل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ حلف نہ لے کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
وکیل اشتر اوصاف علی کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب آئین پر عمل نہیں کر رہے، جسٹس جواد حسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ توہین عدالت کا کیس کیوں نہیں کرتے، وکیل نے جواب دیا وہ ہم کرسکتے ہیں مگر میرے موکل نے ابھی صرف حلف برداری کا معاملہ عدالت کے سامنے رکھنے کا کہا ہے۔
حمزہ شہباز کے وکیل کاکہنا تھا کہ لوگوں کے بنیادی حق متاثرہیں کیونکہ ان کا منتخب نمائندہ کام نہیں کر رہا۔
جسٹس جواد حسن نے کہا کہ عدالت کے فیصلے نہیں مانے جا رہے، یہ عدالت کی عزت کا سوال ہے، مجھے آئین میں راستہ نظر آئے تو میں چل پڑتا ہوں۔
حمزہ کے وکیل اشتر اوصاف نے کہا کہ کورٹ نے سابق وزیراعظم کو توہین عدالت میں 2 منٹ کی سزا دی تھی، توہین عدالت کی سزا کے بعد وزیراعظم کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے
گورنر پنجاب کا وزیر اعلیٰ کا انتخاب تسلیم کرنے سے انکار
29
اپریل 2022
