سندھ کی کئی شہروں اور دیہات کو پانی فراہم کرنے والی اہم ترین کینجھر جھیل تیزی سے خشک ہورہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس سے نہ صرف اطراف کے دیہات اور خود کراچی کو پانی کی فراہمی متاثر ہورہی ہے بلکہ کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
تمام صورتحال میں صوبہ سندھ کا محکمہ آب پاشی بے بس دکھائی دیتا ہے کیونکہ ٹھٹھہ اور اس کے اطراف اور کراچی کو پانی فراہم کرنے والی جھیل اب خودتشنہ لب ہے۔ رہی بات سندھ کی تو سندھ کو فراہم کئے جانے والے پانی کی 42 فیصد مقدار کم ہوچکی ہے۔ خدشہ ہے کہ اگر ایک ہفتے میں پانی فراہم نہ کیا گیا تو اس سے خریف کی تیارفصلوں کو شدید نقصان ہوسکتا ہے۔
بدین کے ساحلی علاقے کے ایک کسان رسول بخش نے بتایا کہ ’کسی بھی جگہ پانی موجود نہیں۔ ہمارے پاس مویشیوں کے لئے پانی نہیں یہاں تک کہ خود پینے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں رہا۔‘
بدین، ٹھٹھہ اور سجاول کے رہائشیوں نے بتایا کہ وہ دن بدن قلتِ آب کے شکار تو تھے ہی لیکن اس موسم میں صورتحال نہایت ابترہوچکی ہے۔ ٹھٹھہ کے قریب دیہات کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ’ نہ صرف سندھ کے زیریں علاقوں بلکہ دیگر حصوں کا ماجرا بھی ایسا ہی ہے۔‘
میڈیا سے بات کرتے ہوئے محکمہ آب پاشی کے وزیر جام خان شورو نے بتایا کہ گزشتہ برس سندھ میں پانی کی قلت 22 فیصد تھی جو اس برس بڑھ کر 42 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ’یہاں تک کہ کئی شہروں میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں،‘ انہوں نے کہا۔
جام خان شورو نے بتایا کہ کینجھر جھیل کی سطح میں 40 فٹ کی کمی ہوچکی ہے۔ ’ اس کا ڈیڈ لیول 42 فٹ ہے اور اگر جھیل میں پانی نہ چھوڑا گیا تو حالات بدترین ہوجائیں گے،‘ انہوں نے بتایا۔ جام خان نے بتایا کہ دریائے سندھ میں پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں قلتِ آب خطرے کی گھنٹی بجارہی ہے۔
’سندھ کے باشندوں کا انحصار دریائی پانی پر ہے کیونکہ لوگوں کے پاس پنجاب کی طرح گراؤنڈ واٹر کی سہولت موجود نہیں۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی سے خفگی ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ نیا فارمولہ (تھری ٹائیر) مسترد کرچکا ہے اور ’ہمیں 1991 کے معاہدے کے تحت پانی درکار ہے۔‘
گزشتہ برس اکتوبر میں سندھ کے نمائیندے ارسا اجلاس سے واک آؤٹ کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شدید ناانصافی ہے کہ چھوٹے صوبوں سے پر تھری ٹائیر جیسا کوئی نیا منصوبہ تھوپا جائے جو 1991 کی آبی تقسیم معاہدے کی خلاف ورزی بھی ہے۔
سندھ میں پانی کی قلت گزشتہ دس برسوں میں شدید ترین ہوچکی ہے۔ سندھ کی عوام نے وفاق سے فوری مدد اور مداخلت کی درخواست کی ہے۔