احسن اقبال اور نیب آمنے سامنے ،اسلام آباد ہائی کورٹ نے بڑا ریلیف دے دیا ۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں نارووال سپورٹس سٹی کمپلیکس کی تعمیرمیں اختیارات کے غلط استعمال سے متعلق وفاقی وزیراحسن اقبال کی نیب ریفرنس سے بریت کی درخواست پرسماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے احسن اقبال کی بریت درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹرسے استفسار کیا کہ کیا آپ نے جواب فائل کر دیا ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ کمنٹس پہلے سے دائرہیں، اب متفرق درخواست کے ساتھ اضافی دستاویزات جمع کرائی ہیں۔
احسن اقبال کی جانب سے ذوالفقارعباسی نقوی ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے کہا کہ احتساب عدالت کے آرڈر کو آپ نے چیلنج نہیں کیا۔ آپ اس حد تک مطمئن ہیں کہ یہ کرپشن نہیں، صرف اختیارات کے غلط استعمال کا کیس ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کہہ رہی ہے کہ عدالت کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ یہ ریفرنس سن سکتی ہے۔ آپ مسعود چشتی کیس کا فیصلہ پڑھ لیں، کیا احتساب عدالت کا دائرہ اختیاربنے گا؟
نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر دو ٹاسک دیے تھے۔ عدالت نے پوچھا تھا کہ کیا ضمنی ریفرنس دائر ہو سکتا ہے؟ یہ بھی پوچھا تھا کیا ذاتی مالی فائدہ لیے بغیر ریفرنس بن سکتا ہے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ پہلے دیا تھا، نیب ترمیمی آرڈی نینس بعد میں آیا۔ نیب کا جو ترمیمی آرڈی نینس آیا وہ عدالتی فیصلوں کی توثیق کررہے تھے۔ نیب آرڈی نینس کی سیکشن نائن اے بدعنوانی اور کرپٹ پریکٹسز سے متعلق ہے۔ آپ نے احد چیمہ والا کیس دیکھا؟ آپ کو اندازہ ہے کہ نیب نے کتنا نقصان پہنچایا؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ احد چیمہ اور ان کی طرح کے دیگر افسران کی داد رسی اور ازالہ کون کرے گا؟ اس بات کی نتائج ہیں جو سامنے آ گئے ہیں۔ ایگزیکٹو بہت سارے فیصلے نیک نیتی سے کرتے ہیں جس کا نقصان بھی ہو سکتا ہے مگر وہ کرپشن نہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسا دنیا بھرمیں ہوتا ہے، اسے کرپشن نہیں کہا جا سکتا جس سے کوئی مالی فائدہ نا اٹھایا گیا ہو۔ آپ بریگیڈیئر اسد منیر کو واپس لا سکتے ہیں؟ آپ احد چیمہ اور ان جیسے دیگر افسران کا نقصان پورا کرسکتے ہیں؟
عدالت نے استفسار کیا کہ یہ عوامی منصوبہ تھا جس پر پبلک فنڈز خرچ ہوئے، اس کی منظوری کس نے دی؟
نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے اس کی منظوری دی۔
عدالت نے کہا کہ یہ پراجیکٹ آدھا بن گیا تھا جو بنتے بنتے رک گیا، اس کو کس نے روکا؟ اس پراجیکٹ میں تاخیر کا نقصان کس پرجائے گا؟ کیا آپ اپنے اوپر بھی کیس بنائیں گے؟ کیا آپ نے یقینی بنایا کہ پبلک فنڈز ضائع نہ ہوں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نیب اس نقصان کا ذمہ دار ہے، اب آپ اپنے خلاف ریفرنس دائر کیوں نہیں کرتے؟ کہیں تو کوئی جوابدہ ہو۔ اس پراجیکٹ پر 80 سے 90 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔ سپریم کورٹ نے پشاور کی میٹرو بس سے متعلق تحقیقات سے کیوں روکا تھا؟
عدالت نے کہا کہ پورے منصوبے میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی، جس باڈی نے منظوری دی اس میں اکیلا پٹیشنرنہیں تھا۔ سی ڈی ڈبلیو پی میں کون کون لوگ تھے، کیا صرف پٹیشنر کو ٹارگٹ کیا گیا؟ کیا انہوں نے بندوق رکھ کر باقی سب سے دستخط کرائے تھے؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگرانہوں نے ایک غلط فیصلہ بھی کرلیا تو اس منصوبے میں کرپشن کیا ہوئی؟ تسلیم شدہ بات ہے کہ یہ کرپشن کا کیس نہیں اور آپ نے ایک شخص کے وقار کو نقصان پہنچایا۔
عدالت نے نیب کو کیس کی تیاری کے لیے مزید مہلت دیتے ہوئے احسن اقبال کی بریت درخواست پر سماعت 8 جون تک ملتوی کردی۔