پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسی کے سربراہوں کی آپس میں ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، اس حوالے سے کوئی ابہام پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
نجی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ کچھ پتا نہیں ہے کیونکہ ان کے دوروں کو اوپن نہیں رکھا جاتا، وہ کہیں بھی جاتے ہیں تو انٹیلی جنس لیول پر یہ معاملات چلتے رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح کے چیلنجز ہمارے خطے کو درپیش ہیں، اس صورتحال میں انٹیلی جنس چیفس کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں، ہمارے آئی ایس آئی چیف مختلف ملکوں کے دوروں پر جاتے ہیں اور وہاں کے انٹیلی جنس چیفس بھی پاکستان آتے رہتے ہیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دوروں کے حوالے سے کسی قسم کا ابہام پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے، اس پر تو بات ہونی ہی نہیں چاہیے، ہم آخر اس کے بارے میں بات ہی کیوں کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ جب فوج کی قیادت پر تنقید کی جاتی ہے تو اس طرح کے بیانات اور سوچ کا ادارے کے مورال اور جوانوں پر اثر ہوتا ہے، ہمارے جوان اور آفیسرز ایک ہیں، ہماری فوج میں لیڈر شپ کا معیار بہت اچھا اور اعلیٰ ہے، ہمارے جوان اور نوجوان افسر کو یقین ہے کہ اس کے اوپر جو بھی کمانڈر بیٹھا ہوا ہے وہ انتہائی قابل ہے، ہمارے آفیسرز فرنٹ سے لیڈ کرتے ہیں اور ہر رینک میں ہماری شہادتیں ہیں۔ یہ سمجھنا کہ لیڈر شپ کو ٹارگٹ کریں تو اس کا نیچے کوئی اثر نہیں ہوگا تو یہ غلط سوچ ہے، آرمی چیف کی ذات پر کوئی بات کی جاتی ہے تو اس کا اثر پوری فوج پر ہوتا ہے، یہ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ ٹی وی پر ہر وقت فوج پر ہی بات ہورہی ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وزیرخارجہ توغذائی تحفظ پرایک کثیرالفریقی اجلاس کیلئے امریکہ جا رہے ہیں، مگر ڈی جی آئی ایس آئی کےدورےکاتویقیناًغذائی تحفظ سےکوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت کی تبدیلی کی سازش کے نتیجےمیں رکاوٹ یعنی عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت ہٹنےپر پاکستان میں امریکی اڈوں پربات چیت کاآغازہو چکا ہے؟ انہوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو مخاطب کرکے کہا کہ پاکستان کے فکرمند شہریوں کیلئےبراہ کرم وضاحت کیجئے۔