بدترین خشک سالی کا خدشہ، اقوام متحدہ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

14  مئی‬‮  2022

اقوام متحدہ نے کہاہے کہ اس وقت دنیا خشک سالی پر قابو پانے کےحوالے سے مشکل حا لات سے دوچار ہے ۔ اقوام متحدہ کے حکام نے جاری کردہ رپورٹ میں خشک سالی پر قابو پانے کی تیاری کے لیے عالمی عزم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاہے کہ خشک سالی کے دورانیے اور تعداد میں اضافہ اور شدید موسم ترقی پذیر ممالک میں آفات کی بڑی وجہ ہے ۔

خشک سالی 2022ء کی یہ رپورٹ اقوام متحدہ کے کنونشن ٹو کامبیٹ ڈیزرٹیفکیشن کی فریقین کی 15 ویں کانفرنس میں خشک سالی کے دن کے موقع پر شائع کی گئی جو اگلے ہفتے کوٹ ڈی آئیور میں منعقد ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن ٹو کامبیٹ ڈیزرٹیفیکیشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری ابراہیم تھیونے ایک بیان میں کہا کہ اس وقت دنیا خشک سالی پر قابو پانے کےحوالے سےمشکل دوراہے پر ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں تباہ کن کارروائیوں کو جاری رکھنے کی بجائے حل کی طرف گامزن رہنے کی ضرورت ہے، یہ مانتے ہوئے کہ معمولی تبدیلی نظام کی ناکامی کو ٹھیک کر سکتی ہے۔رپورٹ کے اہم نتائج میں 2000ء کے بعد سے خشک سالی کی تعداد اور مدت میں 29 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1970ء سے 2019ء تک موسم، آب و ہوا اور پانی کے خطرات زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں دیکھے گئے اوران آفات کے باعث 45 فیصد اموات دیکھنے میں آئیں۔

مصنفین نے کہا کہ خشک سالی قدرتی آفات کے نقصانات کی 15 فیصدنمائندگی کرتی ہے لیکن سب سے زیادہ انسانی اموات کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے 1970 سے 2019 تک 650,000 اموات ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق 2.3 بلین سے زیادہ لوگ پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں اور تقریباً 160 ملین بچے شدید، طویل مدتی خشک سالی کے حالات کا شکار ہیں۔ماہرین نے اندازہ لگایا کہ اگر اس مسئلے پر عالمی کارروائی نہ کی گئی تو 2030 تک تقریباً 700 ملین افراد خشک سالی کی وجہ سے بے گھر ہونے کے خطرے سے دوچار ہوں گے، جب کہ 2040 تک 4 میں سے 1 بچہ پانی کی شدید قلت والے علاقوں میں رہے گا۔اقوام متحدہ کے مطابق، 2050ء تک، خشک سالی دنیا کی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کر سکتی ہے، جس میں اندازے کے مطابق 4.8 بلین سے 5.7 بلین لوگ ایسے علاقوں میں آباد ہیں جو سالانہ کم از کم ایک ماہ تک پانی کی کمی کا شکار ہیں جو آج کل 3.6 بلین سے زیادہ ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ خشک سالی، پانی کی کمی، فصلوں کی ناکامی، سطح سمندر میں اضافہ اور آبادی میں اضافہ کی وجہ سے 216 ملین تک لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق، امریکہ میں، فصلوں کی ناکامی اور خشک سالی سے منسلک معاشی نقصانات پچھلی صدی کے دوران کئی سو بلین ڈالر تک پہنچ گئے اور صرف 1980ء کے بعد سے 249 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔

زمینوں کی صحرا بردگی پر قابو پانے کے اقوام متحدہ کے کنونشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری نے، اس جاری عالمی بحران کے کئی مرحلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے خاص طور پر زمین کی بحالی پر زور دیاہے ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ فطرت کی جانب منتقلی کرنےاور فعال ماحولیاتی نظام پر مشتمل اقدمات اس کوشش کیلئے اہم ہے۔

انہوں نے کہاکہ رپورٹ اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ زمین کی بحالی کے لئے اس طرح کی پالیسیاں موثر ہیں، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ نائیجر یامیں، کسانوں نے 20 سالوں میں 5 ملین ہیکٹر (12 ملین ایکڑ) اراضی پر زرعی جنگلات کے نئے نظام بنا کر خشک سالی کے خطرات کو کم کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے نقطہ نظر کے لیے تعاون کی ضرورت ہوگی اور اسے کافی فنڈز اور سیاسی ارادے سے تقویت دی جانی چاہیے۔رپورٹ میں جن دیگر حلوں کی تائید کی گئی ہے ان میں جانوروں کی کھپت کو کم کرنا، سرحدوں کے پار مؤثر ابتدائی انتباہی نظام کا قیام، درست ٹیکنالوجیز کی تعیناتی،

پائیدار مالیات کو متحرک کرنا اور ان عملوں میں کاروباری افراد، مقامی کمیونٹیز اور نوجوانوں کی شمولیت شامل ہیں۔اس اشاعت کے حقائق اور اعداد و شمارخشک سالی کے دورانیے اور اثرات کی شدت میں اضافے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے اثرات نہ صرف انسانی معاشروں کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہے ہیں جن پر ہماری اپنی نسلوں سمیت تمام زندگیوں کی بقا کا انحصار ہے۔

انہوں نے کہاکہ کم زمین اور کم پانی کے ساتھ زیادہ خوراک اگانے کے لیے پائیدار اور موثر زرعی انتظامی تکنیکوں کی اوردرست سمت میں آگے بڑھنے کے لیے مربوط خشک سالی کے ایکشن پلان کے ساتھ تمام سطحوں پر مربوط پالیسی اور شراکت داری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1998ء سے 2017ء تک خشک سالی نے تقریباً 124 بلین ڈالر کے برابر عالمی اقتصادی نقصان پہنچایا۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved