آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق صدر آصف علی زرداری اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی نااہلی کے متعلق درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو کسی بھی منتخب نمائندے کے خلاف کوئی درخواست کیوں سننی چاہیے؟ہم اگر نوٹس بھی لیں تو ہمارے اوپر الزام لگایا جات ہے کہ پولیٹیکل انجینئرنگ کر رہے ہیں، عدالت ایسے سیاسی نوعیت کے معاملات میں کیوں پڑے جو پارلیمنٹ میں بھی لائے جا سکتے ہیں۔ اب یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ ایسے کیسز کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آصف علی زرداری کے فلیٹ سے متعلق کیس ابھی نیب کے پاس ہے، عدالت کو کیا ابھی یہ کیس سننا چاہیے؟، کیا سیکریٹری قومی اسمبلی کی رپورٹ آئی ہے ؟
وزیراعظم 5 حلقوں سے منتخب ہوئے تھے اور ان کے خلاف بھی درخواست آ گئی تھی، اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو اس کا فیصے اس کے حلقے کی عوام نے کرنا ہے، عدالتوں کو نہیں اور اسی لئے ہم نے وہ درخواست نہیں سنی۔ جب عوام سب کچھ جانتے ہوئے ایسے افراد کو منتخب کرتے ہیں تو عدالت کیوں مداخلت کرے؟ پارلیمنٹ ممبران اسمبلی کا احتساب خود کیوں نہیں کرتی؟ ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کہا بھی تھا کہ ممبران اسمبلی کے احتساب کا نظام بنائیں، کیونکہ ہم نے ایک رکن اسمبلی کو نااہل کیا تو اس حلقے کی عوام کافی دیر تک پارلیمنٹ میں نمائندگی سے محروم رہی۔ اس موقع پردرخواست گزار سمیع ابراہیم نے کہا کہ عدلیہ آرٹیکل 199 کے تحت یہ معاملات دیکھ سکتی ہے، نوازشریف کے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا، جس کے جواب میں جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہمارے پاس صوابدیدی اختیارات ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی نااہلی کے درخواست گزار خرم شیر زمان سے کہا کہ آپ کی پارٹی کے پاس پارلیمنٹ میں اکثریت ہے آپ اس فورم پر یہ معاملہ دیکھ سکتے ہیں، ہمارے پاس بڑی تعداد میں زیرالتواء کیسز پڑے ہیں، جو لوگ جیلوں میں قید ہیں انکی اہمیت زیادہ ہے، انہیں بنیادی حقوق نہیں مل پا رہے، ہمیں ان کیسز کو دیکھنا ہے،
عدالت نے مزید کہا کہ آئندہ سماعت پرفواد چوہدری اور آصف زرداری نااہلی کیس کا فیصلہ کریں گے، عدالت نے سماعت 4 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے سمیع ابراہیم کو آئندہ سماعت پر وکیل کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کردی۔