ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ یورپی ممالک کے مطابق ایران نے سابقہ 6 ادوار میں ہونے والی پیش رفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدے کی منسوخی کے محرکات سے دوبارہ آغاز کیا جائے، اور اس کے ساتھ تہران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر تیزی سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
برطانوی جریدے دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 3 دسمبر 2021ء کے مذاکراتی دور میں ایرانی وفد گذشتہ 5 مہینے میں ہونے والے مذاکراتی ادوار کی پیش رفت اور اپنی آمادگیوں کو مسترد کرتے ہوئے اپنی نئی شرائط تسلیم کرانے پر بضد ہے، جس پر مغربی ممالک کے مذاکراتی وفود نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
Talks with Iran on restoring 2015 nuclear deal suspended https://t.co/UtPXyDhCYU
— The Guardian (@guardian) December 3, 2021
یورپی یونین کے مذاکراتی وفد کے سربراہ اینریک مورا نے میڈیا نمائندوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ آئندہ ہفتے مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرنے کی کوشش کریں گے، لیکن ایران کو سمجھانے اور پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت مذاکرات کرنے پر آمادہ کرنے کیلئے ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے، ایک ہفتے کیلئے مذاکراتی عمل روکنے کا مقصد فریقین کو سوچنے کیلئے مزید وقت دینا ہے، تاکہ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
ایران کے مذاکراتی وفد کے سربراہ علی باقر کنی کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات سے ایسے نتائج سامنے آئیں جس پر تمام فریقین سختی سے عمل کریں، کوئی یکطرفہ طور پر معاہدے سے الگ ہو تو آئندہ اس سے جواب طلب کیا جائے۔
یاد رہے کہ ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء کے جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے مذاکرات کا دوبارہ آغاز 29 نومبر 2021ء کو آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شروع ہوا تھا۔ اجلاس میں ایران کے ساتھ چین، روس، جرمنی اور فرانس براہ راست مذاکرات میں شریک ہیں جبکہ امریکی وفد بالواسطہ طور پر مذاکرات میں شریک ہے، کیونکہ ایران کا موقف ہے کہ جب تک امریکہ ایران پر عائد غیر قانونی پابندیوں کا خاتمہ نہیں کرتا، تب تک اس کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔
برطانوی جریدے کی رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر مذاکرات میں ڈیڈ لاک برقرار رہا تو اسرائیل کے ایران پر حملے کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔