کشمیری صحافیوں پر حملے، بھارت اظہار رائے کی آزادی چھینے کی کوشش کر رہا ہے، اقوام متحدہ

4  دسمبر‬‮  2021

انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ میری لالور نے کہا کہ ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ صحافیوں کے خلاف بلاجواز حملے بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر اظہار رائے کی آزادی اور مسائل کے بارے میں رپورٹنگ کو روکنے کی کوشش ہو سکتے ہیں ۔

(اے پی پی) کشمیر میڈیا سروس کے مطابق یہ مراسلت بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے 2 صحافیوں قاضی شبلی اور آکاش حسن اور بھارتی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن چندر بھوشن تیواری کو ہراساں کرنے کے بارے میں تھی۔میری لالور نے یہ مراسلہ رواں برس یکم اکتوبر کو بھارتی حکومت کو بھیجا تھا۔
مراسلے میں کشمیری صحافی قاضی شبلی کے گھر پر چھاپوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قاضی شبلی ضلع اسلام آباد میں ایک نیوز ویب سائٹ کشمیریت کے ایڈیٹر ہیں۔ رواں برس6 اگست کو پولیس نے قاضی شبلی کے گھر کی تلاشی لی جب کہ وہ وہاں نہیں تھے۔
پولس زبردستی تالہ توڑ کر شبلی کے گھر میں داخل ہوئی اور کھڑکیوں کے شیشوں، ایک حفاظتی کیمرہ اور دیگر کئی اشیاکی توڑپھوڑ کی۔ میری لالور نے اپنے مراسلے میں کہاکہ 6 اگست کو ہی پولیس نے شبلی کے ایک رشتہ دار اور دادی کے گھروں کی بھی تلاشی لی۔ تلاشی کی ان کارروائیوں سے چند گھنٹے قبل” کشمیریت “نے 2017 کا ایک مضمون سوشل میڈیا پر دوبارہ پوسٹ کیا تھا،جس میں ایک کشمیری نوجوان کے بارے میں بتایا گیا تھا جسے بھارتی فورسز نے قتل کر دیا تھا۔
مراسلے میں بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے ایک فری لانس صحافی آکاش حسن کا بھی ذکر کیا گیا جو زیر تسلط علاقے میں بڑھتی ہوئی بھارتی فوجی موجودگی اور وہاں کے شہریوں پر فوجیوں کی کڑی نگرانی کے بارے میں حالیہ برسوں کے دوران رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
رواں برس17 جولائی کوجب وہ رات 9 بجے کے قریب گھر جا رہے تھے تو ضلع پولیس نے اسلام آباد میں انکی گاڑی روک دی اور ایک پولیس افسر نے انہیں مبینہ طور پرگریبان سے پکڑا اور انکے چہرے اور جسم پر ڈنڈے برسائے۔مراسلے میں کہا گیا کہ آکاش حسن نے بعد ازاں حملے کی تفصیلات اور اپنے زخمی ہونے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
واقعہ کے کچھ دیر بعد ضلع اسلام آباد کی پولیس کے ایک سپرنٹنڈنٹ نے حسن سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ واقعہ کی تحقیقات کی جائیں گی۔ تاہم آکاش حسن کو ابھی تک کسی بھی تحقیقات کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ۔
مراسلے میں کہا گیا کہ یہ چھاپے جموں وکشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کی ایک واضح مثال ہیں۔مراسلے میں بھارتی ریاست بہار کے صحافی چندر بھوشن تیواری کا بھی ذکر کیا گیا جو مبینہ پولیس بدعنوانی کو بے نقاب کر تے رہے ہیں۔چندر بھوشن تیواری ریاست بہار کے کیمور ضلع میں روزنامہ ہندی اخبار گیان شیکھا ٹائمز کے لیے کام کرتے ہیں۔
وہ اخبار کے لیے وسیع تر مسائل بشمول انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے ہیں۔ بھارتی پولیس نے انہیں بھی بے رحمی سے مارا پیٹا۔اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ شکایات کی تحقیقات اور پیروی کی کمی اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ بھارتی پولیس فورسز میں بدعنوانی افسروں تک ہی محدود نہیں رہی ہے جن کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ رشوت لیتے ہیں۔
۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ صحافیوں کے خلاف بلاجواز حملے بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل پر اظہار رائے کی آزادی اور مسائل کے بارے میں رپورٹنگ کو روکنے کی کوشش ہو سکتے ہیں ۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved