جاسوسی الزام میں گرفتار اہلکارکی درخواست ضمانت خارج

15  جون‬‮  2021

مقدمہ کے مطابق ملزم غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کوخفیہ معلومات دیتاتھا
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت خارجہ کے چینی ڈیسک پر ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے سینئر اہلکار کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حساس معلومات لیک کرنے سے متعلق کیس میں خارج کردی۔ ڈان اخبار کے مطابق وزارت منصوبہ بندی و ترقی کے 18 گریڈ کے اہلکار سید قلب عباس تقریباً 3 سال سے وزارت خارجہ میں ڈیپوٹیشن پرچائنہ ڈویژن کے ڈپٹی ڈائریکٹرکی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔

انسداد دہشت گردی ونگ (سی ٹی ڈبلیو) میں درج ان کے خلاف ایف آئی آر کے مطابق وہ اکثر سفارت کاروں اور غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے ریاست کے تحفظ اور مفادات کے حوالے سے خفیہ معلومات و دستاویزات فراہم کرتے تھے۔ ملزم نے 2000 کے اوائل میں وزارت غذا، زراعت اور مویشی میں بحیثیت ریسرچ آفیسر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد ازاں وہ سیکشن آفیسر بن گئے اور اقوام متحدہ ، غیر ملکی تربیت کے معاملات دیکھنے والے معاشی امور ڈویژن سے وابستہ رہے۔وہ ستمبر 2018 میں وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر بنے۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 3 اور 4 کے تحت درج مقدمے میں قلب عباس پر حساس معلومات لیک کرنے کا الزام ہے۔ ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق مشتبہ شخص روسی انٹیلی جنس کے لئے کام کرنے والے منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا ، اس سے اس کے ساتھیوں کی شناخت، سرکاری دستاویزات کیسے حاصل کیں بارے تفتیش کی جا رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے پر ملزم کے وکیل شاہ خاور نے استدلال کیا کہ ان کے مو¿کل کی ملازمت کی نوعیت کی وجہ سے انہیں سفارتکاروں سے ملاقات کی ضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کے پاس بے داغ سروس ریکارڈ موجود ہے۔ وکیل دفاع نے دعویٰ کیا کہ ایف آئی آر جعلی اور غیر سنجیدہ بنیادوں پر مبنی ہے، اس کیس کو مزید تفتیش کی ضرورت ہے لہذا درخواست گزار ضمانت پر آزاد ہونے کا حقدار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ضمانت پر رہا ہونے پر وہ مفرور ہوسکتا ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ خاور نے کہا کہ درخواست گزار نومبر 2020 سے لاپتہ تھا جبکہ 15 فروری کو اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ گمشدگی کے دوران ان کی بازیابی کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وکیل نے بتایا کہ آخر کار ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی اور ان پر سرکاری خفیہ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔

دلائل کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر نے کہا قلب عباس کو ایف آئی آر میں نامزد ان سے منسلک ایک خاص کردار کی وجہ سے کیا گیا۔ انہوں نے استدلال کیا کہ درخواست گزار کا بیان فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 164 کے تحت درج کیا گیا ہے اور بازیابی کی گئی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اصرار کیا کہ شواہد سے واضح طور پر یہ ثابت ہوا ہے کہ درخواست گزار غیر ملکی انٹیلی جنس حکام کے لیے کام کر رہا ہے۔

انہوں نے عدالت کو یاد دلایا کہ درخواست گزار کے خلاف جو الزامات لگائے گئے ہیں، اگر وہ ثابت ہوئے تو اسے سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے اور اس وجہ سے وہ ضمانت سے آزاد ہونے کا اہل نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد مشاہدہ کیا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے علاوہ عوامی اعتماد کی خلاف ورزی پر ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 409 بھی لگائی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ مقدمے کی سماعت پہلے ہی شروع ہوچکی ہے لہذا وکیل دفاع جلد از جلد مقدمے کو ختم کرنے کے لئے مناسب اقدامات کرسکتا ہے۔بعد ازاں عدالت نے ملزم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست خارج کردی۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں


About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved