توہین عدالت کیس، اگر 13 دسمبر تک اصل بیان حلفی نہ آیا تو فرد جرم عائد کر دیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ

7  دسمبر‬‮  2021

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آج سابق چیف جج گلگت بلتستان کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی سماعت میں کہا ہے کہ اگر اصل بیان حلفی 13 دسمبر تک نہ آیا تو فرد جرم عائد کر دیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق چیف جج گلگت بلتستان راناشمیم کے بیان حلفی کی خبرپرتوہین عدالت کے کیس کی سماعت ہوئی۔

سماعت میں سابق چیف جج  گلگت بلتستان رانا شمیم، صحافی انصار عباسی اور عامر غوری کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود،  اور ایڈوکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے،  جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی، جسے منظور کر لیا گیا۔

دوران سماعت رانا شمیم کے وکیل نے اخبار میں شائع ہونے والے بیان حلفی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس بیان حلفی کا متن درست ہے،  لیکن یہ شائع کرنے کیلئے نہیں دیا تھا۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بیانیہ بنایا جا رہا ہے وہ بہت  تکلیف دہ ہے، آپ  ان الزامات کا کوئی ایک ثبوت لے کر آ جائیں، اگر ان میں ذرا سی بھی حقیقت ہوئی  تو میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔

بیان حلفی سے عدالت کی ساکھ پر سوال اٹھنے لگ گئے

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ گزشتہ سماعت پر انہوں نے کہا تھا  کہ ہم نے بیان حلفی نہیں دیا، اس بیان حلفی سے اس عدالت کی ساکھ پر سوالیہ نشان اٹھ گیا ہے، کیا یہ صحافتی اقدار ہیں  کہ اس طرح کی خبریں شائع ہوں؟ اس موقع پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے گذشتہ سماعت کا تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ خبر میں رجسٹرار ہائی کورٹ اور عدالت کا موقف شامل نہیں کیا گیا،  انہوں نے سوال کیا کہ تصدیق کئے بغیر خبر شائع کرنے کی کیا ایمرجنسی تھی،  اگر یہ بیان حلفی پرائیویٹ تھا، تو صحافی سے سوال کیوں نہیں پو چھا گیا؟

بات 3 سال بعد کیوں باہر آئی؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ رانا شمیم کے وکیل نے لطیف آفریدی کو مخاطب  کرتے ہوئے کہا کہ ججز کے خلاف بیان بازی اور الزامات کا ایک بیانیہ تشکیل دے دیا گیا ہے، ہم ججز اپنا موقف پیش کرنے کیلئےکوئی پریس کانفرنس نہیں کرسکتے، ججز پر اسی طرح دباؤ  ڈالاجارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس نے گلگت کے چیف جج کے سامنے فون پر بات کی، دو حاضر سروس ججز کی ملاقات ہوئی اور بات تین سال بعد باہر آئی۔ مزید کہا کہ اس عدالت کے اس معزز جج کا نام لیا گیا، جو ان دنوں ملک میں موجود ہی نہیں تھے۔

سوموار تک بیان حلفی نہ آیا تو فرد جرم عائد کر دیں گے

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الزام چیف جسٹس پاکستان کےخلاف نہیں بلکہ اس ہائیکورٹ کےجج کےخلاف ہے، آپ کیاچاہتے ہیں کہ مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججزکےخلاف انکوائری شروع ہوجائے؟

اس موقع پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے کہا کہ میرے موکل نے بیان حلفی کے متن سے کوئی انکار نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ اصل بیان حلفی  خود لارہے ہیں یا وہاں پاکستانی سفارتخانے کو دیں گے؟

اس پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ اصل بیان حلفی رانا شمیم کے نواسے کے پاس ہے، ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے  استدعا کی کہ رانا شمیم کو بیان حلفی لینے کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیں، جسے جسٹس اطہر من اللہ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ باہر نہیں جا سکتے، اگر 13 دسمبر سوموار تک بیان حلفی نہ آیا تو فرد جرم عائد کر دیں گے، عدالت نے کیس کی سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

آج کی سماعت کے دوران سابق چیف جج گلگت بلتستان  رانا شمیم نے عدالتی نوٹس کا تحریری جواب بھی جمع کرا دیا۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں






About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved