سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی

8  مئی‬‮  2024

اسلام آباد ہائی کورٹ میں آج سابق وزر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی جس میں بانی پی ٹی آئی کے وکلا سلمان صفدر، خالد یوسف چودھری اور دیگر جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی کی مختلف لیکڈ آڈیوز کے حوالے سے ٹیکنیکل انائلیسز رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنیکل رپورٹ میں 9 آڈیو بیانات ایک سی ڈی میں موجود ہیں، ٹیکنیکل رپورٹ سائفر سیکیورٹی افسر نے تیار کی ہے، ٹیکنیکل اینالسٹ نے یہ آڈیوز مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے حاصل کی ہیں، رپورٹ تیار کرنے والے گواہ کے بیان کے مطابق آڈیو لیکس اس وقت بھی مختلف پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے نے انکوائری کی ہے اس سے متعلق ایکسپرٹ نے کیا تحقیق کی ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ آڈیوز آئی کہاں سے ہیں اور اس کو پوسٹ کس نے کیا ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ایک نامعلوم شخص نے یہ آڈیوز انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی تھیں، الیکٹرانک شواہد سے متعلق ایکسپرٹس نے عدالت میں پیش ہو کر بیان دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ایکسپرٹس بطور ایکسپرٹ عدالت میں پیش ہوئے یا بطور گواہ؟ مریم نواز کیس میں بھی لکھا تھا کہ جو ایکسپرٹ آتا ہے اس نے اپنی خصوصیت بتانا ہوتی ہے، ایکسپرٹ نے بتانا ہے کہ وہ کس چیز کا ایکسپرٹ ہے؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 28 ستمبر 2022 کو ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ سے یہ آیڈیوز اپلوڈ کی گئیں ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ انٹرنیٹ پر موجود چیز کو تصدیق کیے بغیر دس سال سزا سنا دی گئی؟ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے جس سے میری اور آپ کی آواز بھی بنائی جاسکتی ہے، سابق چیف جسٹس کی آڈیو لیک ہوئی اور بعد میں تحقیق سے غلط نکلی۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مزید بتایا کہ سائبر ونگ کے پاس یہ انفارمیشن ہوتی ہے کہ کون اکاؤنٹ استعمال کررہا ہے، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ سائفر کیس میں صرف یہ ایک ثبوت نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دستاویزات موجود ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ججمنٹ میں ہے کہ کسی کی آیڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاسکتی، اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کو اس معاملے کی جڑ تک پہنچنا چاہیے جو ایک وزیراعظم تک پہنچ گیا۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اظہر نامی شخص کا ویریفائیڈ ٹویٹر اکاؤنٹ ہے جس پر آڈیو اپلوڈ کی گئی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ کیا اس اظہر کو بلا کر پوچھا گیا؟، اس اظہر سے پوچھیں تو صحیح کہ اس نے وزیراعظم آفس کی آڈیو کیسے بگ کر لی؟ اگر بَگ کر لی تو کیا وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کی جرات بھی کرے گا؟ یہ اظہر تو بہت کام کا آدمی ہے یہ تو اثاثہ ہے اور ہو سکتا ہے، اظہر نے وزیراعظم کے گھر سے وزیر خارجہ کے ساتھ گفتگو بَگ کر کے انٹرنیٹ پر لگا دی، آپ کہتے ہیں اظہر کو چھوڑ دیں لیکن جو اس نے کہا وہ بالکل درست ہے، آپ انٹرنیٹ والی آڈیو کو درست مان کر دس دس سال سزا بھی دے دیتے ہیں۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ یہ ہماری واحد شہادت نہیں ہے، اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔

بعد ازاں پراسیکیوٹر کی جانب سے سائفر معاملے پر مختلف اخبارات کی خبروں کا حوالہ دیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ان اخبارات کی خبروں سے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ حامد علی شاہ نے کہا کہ اخبارات کے اندر سیکریٹ معلومات کو لیک کیا گیا ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کونسی ایسی معلومات تھیں جو اخبارات میں لیک ہوئیں؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گواہوں کے بیانات پر بات کرنے کے بعد اس بارے عدالت کو آگاہ کروں گا۔

پھر ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے سرکاری ٹی وی کے کیمرہ مین کا بیان پڑھا گیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کیمرہ مین نے جو ریکارڈ کیا وہ سی ڈی میں موجود ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی وہ سی ڈی میں موجود ہے، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ کیمرہ مین تو پھر اعظم خان سے بھی اسٹار گواہ بن گیا جس نے سائفر دیکھ بھی لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیمرہ مین یہی کہہ رہا ہے نا 27 مارچ 2022 کے جلسے کی ریکارڈنگ اس نے کی ہے۔

بعد ازاں ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے سائفر کیس کی گواہ وزارت خارجہ کی ڈائریکٹر اسپوکس پرسن کا بیان پڑھ کر سنایا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے دریافت کیا کہ ایف آئی اے اعظم خان کے بجائے کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہی ہے؟ کیا پراسیکیوٹر کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں کہ اعظم خان کا بیان تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ اعظم خان کا بیان ضائع ہونے کا سوچ کر کیمرہ مین کے بیان پر انحصار کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے جو انٹریوز ہیں وہ اس وقت بھی یوٹیوب پر موجود ہوں گے، ایف آئی اے پراسیکیوٹریوٹیوب پر تقریر موجود ہوگی، ایک نجی ٹی وی چینل پر دیا گیا انٹرویو بھی پیمرا یا متعلقہ پروگرام کے پروڈیوسر کے پاس موجود ہوگا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ڈائریکٹر وزارت خارجہ اقرا اشرف نے لکھا کہ یہ فائنل ٹرانسکرپٹ نہیں ہے، اقرا اشرف نے لکھا کہ مجھ سے ایف آئی اے نے جلدی میں یہ ٹرانسکرپٹ لکھوایا ، اقرا اشرف نے ایمانداری سے کام لیا، آپ نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے ایک نامکمل ڈاکومنٹ لے لیا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اقرا اشرف کا ڈاکومنٹ نکال لیا جائے تو آپ کے پاس کیا بچتا ہے؟ ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے بتایا کہ میرا کیس صرف اس ڈاکومنٹ پر انحصار نہیں کرتا ہے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر کی جانب سے قانون شہادت کا حوالہ دیا گیا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ گوگل سے ڈاؤ لوڈ کیا ہے، کاپی پیسٹ کرنے سے غلطیاں نکل آتی ہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جو سیلر تھے وہ پبلشر بن گئے ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

سب سے زیادہ مقبول خبریں


About Us   |    Contact Us   |    Privacy Policy

Copyright © 2021 Sabir Shakir. All Rights Reserved